حج کرنے کے فضائل

aziz_865

New Member
حج کرنے کے فضائل اور اس کے ترک کی وعیدیں جو وارد ہیں جن کا ذکر انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ آئے گا‘ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ بعضے عبادتیں صرف بدنی ہیں جیسے نماز‘ روزہ وغیرہ اور بعضے صرف مالی جیسے زکاۃ‘ صدقات وغیرہ اور حج دونوں قسم کی عبادتوں کا جامع ہے‘ اس میں مال بھی خاطر خواہ خرچ ہوتا ہے اور سفر کی مصیبتیں بھی جھیلنی پڑتی ہیں‘ سفر گو ایک ایسی مصیبت ہے کہ اس کی وجہ سے چار رکعت کی دو رکعت کردی گئیں جس سے ظاہر ہے کہ وہ باعث تخفیف عبادت ہے‘ اور یہاں سفر ہی عبادت ٹھہرایا گیا‘ ایسی مشقت کی عبادت پر متقضائے رحمت الٰہی یہی تھا کہ اس کا ثواب بھی حد سے زیادہ ہو‘یہی وجہ ہے کہ حج کے بعد آدمی کو اپنی مغفرت کا یقین کرنا چاہئے‘ چنانچہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ جو شخص عرفات پر کھڑا ہو یعنی حج کے دن اور اس کے خیال میں یہ بات ہو کہ اس کی مغفرت نہیں ہوئی تو اس سے بڑھ کر گنہگار کوئی نہیں۔
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ ایک روز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حضور میں مسجد منیٰ میں بیٹھا تھا کہ دو شخص حاضر ہوئے ایک انصاری اور دوسرا ثقفی‘ دونوں نے سلام عرض کرکے کہا: یا رسول اللہ! ہم آپ سے کچھ پوچھنے کے لئے حاضر ہوئے ہیں‘ فرمایا: اگر چاہتے ہو تو میں خود کہہ دوں کہ تم کیا پوچھنا چاہتے ہو ورنہ تم ہی پوچھو! انہوں نے کہا: حضرت ہی خبر دیں تو بہتر ہے! انصاری نے ثقفی سے کہا کہ تم عرض کرو‘ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ؟ میرے سوالات مع جوابات ارشاد فرمائیے! حضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ تم اس غرض سے آئے ہو کہ جب تم اپنے گھر سے بیت اللہ کے ارادے سے نکلو تو اس کا تمہیں کیا نفع ہوگا؟ اور بعد طواف کے دو رکعت پڑھو تو کیا نفع ہوگا؟ اور صفا و مروہ کی سعی‘ عرفات میں عرفہ کے روز کھڑے رہنے کے‘ رمی جمرات‘ قربانی اور طواف زیارت میں کیا کیا فوائد ہیں؟ ان سوالات کو سُن کر انہوں نے کہا: اس خدا کی قسم ہے جس نے آپ کو مبعوث کیا ہے ان ہی سوالات کے دریافت کی غرض سے میں حاضر ہوا تھا‘ پھر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم اپنے گھر سے بقصد بیت الحرام نکلتے ہو تو تمہاری اونٹنی ایک ایک قدم اٹھاکر جو زمین پر رکھتی ہے تو ایک ایک نیکی تمہارے لئے لکھی جاتی ہے اور ایک ایک گناہ مٹایا جاتا ہے ‘
پھر طواف کے بعد دو رکعت پڑھو گے تو اس کا ثواب ایسا ہے جیسے تم نے ایک غلام آزاد کیا جو اولاد اسماعیل علیہ السلام سے ہو‘ اور صفا و مروہ کی سعی کا ثواب ستّر غلاموں کے آزاد کرنے کے برابر ہے‘ پھر جب میدان عرفات میں کھڑے ہوتے ہو تو خدائے تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول اجلال فرماکر فرشتوں سے بطور فخر فرماتا ہے: دیکھو میرے بندے دور دور سے کیسے پریشان حال میرے لئے آئے ہیں اور ان کا مقصود فقط میری رحمت ہے‘ اگر ان کے گناہ ریگستان کی ریگ کے برابر ہوں‘ بارش کے قطروں کے برابر یا کفِ دریا (جھاگ) کے برابر ہوں تو بھی ان کو میں نے بخش دیا‘ اور ان کو ارشاد ہوتا ہے کہ اب تم لوٹو اس حالت میں کہ تمہاری مغفرت ہوگئی‘ پھر جب تم رمی جمار کرتے ہو تو ایک ایک کنکری کے ساتھ ایک ایک گناہِ کبیرہ جو مہلک ہے بخش دیا جاتا ہے‘ پھر تمہاری قربانی کا ثواب خدائے تعالیٰ کے پاس جمع رہے گا‘ پھر جب تم سر کے بال منڈھواتے ہو تو ایک ایک بال کے بدلے میں ایک ایک نیکی ملتی ہے اور ایک ایک گناہ مٹایا جاتا ہے‘ اور جب بیت اللہ کا طواف کرو تو وہ طواف ایسی حالت میں ہوگا کہ تمہارا کوئی گناہ باقی نہ رہے گا‘ اور ایک فرشتہ کہے گا کہ اب از سر نو عمل شروع کرو تمہارے سب پچھلے گناہ محو ہوگئے۔
اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص خدا کے واسطے حج کرے اور اس میں بیہودہ باتیں اور فسق و فجور نہ کرے تو وہ گناہوں سے ایسا پاک ہوجائے گا جیسے ابھی پیدا ہوا۔
اور فرماتے ہیں: جو شخص مناسک حج ادا کرے اور مسلمان لوگ اس کے ہاتھ اور زباں سے سلامت رہیں یعنی کسی کو ایذا نہ دے تو جتنے گناہ اس نے کئے سب معاف ہوجائیں گے اور فرماتے ہیں: حاجی جو مانگے اس کی دعا قبول ہے‘ قیامت کے روز وہ اپنی قرابت کے چار سو شخصوں کی شفاعت کرے گا۔
حج بطور فرض ایک ہی بار مقرر ہونے کی حکمت

ان کے علاوہ فضائل حج میں اور بھی روایتیں بہ کثرت وارد ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حج میں کمال درجے کی خوشنودیٔ الٰہی ہے چونکہ بطیبِ خاطر مال خرچ کرنا اور مصائب پر صبر کرنا مشکل کام تھا اس لئے حق تعالیٰ نے عمر بھر میں ایک ہی حج مقرر فرمایا جس سے اہل ایمان کا امتحان مقصود ہے۔ بڑی افسوس کی بات ہوگی کہ ہم عمر بھر دعوائے عبودیت کرتے رہیں اور تمام عمر میں ایک امتحانِ عبودیت جو مقرر کیا گیا ہے اس سے بھی گریز کرجائیں!!
اس سے تو یہ ثابت ہوگا کہ وہ دعویٰ زبانی ہی زبانی تھا‘ اسی وجہ سے متعدد حدیثوں میں وارد ہے کہ جو حج نہیں کرے گا وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی‘ اللہ کو اس کی کچھ پرواہ نہیں۔
امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ کبھی کبھی میرا یہ قصد ہوتا ہے کہ کارندے شہروں کو روانہ کئے جائیں اور وہ دیکھ آئیں کہ کن لوگوں نے حج نہیں کیا‘ پھر ان پر جزیہ مقرر کروں کیونکہ وہ مسلمان نہیں ہیں‘ اس کو مکرر فرمایا اور فرمایا کہ اگر لوگ کسی سال حج نہ کریں تو ان سے میں جہاد کروں گا جیسے نماز اور زکاۃ کے ترک کرنے والوں سے جہاد کروں گا۔
حج سے بندوں کا امتحان مقصود ہے
کئی طرح سے ثابت ہوتا ہے کہ حج صرف امتحان عبودیت کے لئے مقرر کیا گیا ہے‘ دیکھئے جب احرام باندھا جاتا ہے تو غلام اور آقا‘ بادشاہ اور رعیت‘ سب ایک لباس میں ہوتے ہیں‘ سب سر برہنہ کمال خضوع اور خشوع کی حالت میں خوشبو وغیرہ تنعّم کی چیزوں کے استعمال سے روک دئیے گئے‘ کنگھی تک کی ممانعت ہے تاکہ امراء و سلاطین بھی غلاموںکی سی صورت بنائیں اور لبیک لبیک کہتے فقیروں کی طرح نعرے لگاتے ہوئے اپنے مالکِ حقیقی کی حضوری میں جائیں‘ اس سے سلاطین اور امراء کا امتحان ہوجاتا ہے کہ آیا اس تذلل کو گوارا کرتے ہیں یا نہیں‘ کفار ان امور کو ہرگز قبول نہیں کرسکتے۔ ۔ ۔ ۔ مگر جو اہل ایمان ہیں وہ کہتے ہیں کہ جب ہم نے خدا اور رسول کو بصدق دل‘ تسلیم کرلیا تو ان کے حکم پر اس قسم کے اعمال تو کیا جان بھی اگر فدا کردیں تو کم ہے‘ خصوصاً اس وجہ سے کہ کمال خوشنودیٔ الٰہی اس میں ہے‘ ایسے موقع میں تو متقضائے عبودیت یہ ہے کہ اپنے مالک کی خوشنودی کے لئے یہ کام مع شئے زائد ادا کئے جائیں‘ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اکثر بزرگان دین دیکھے جاتے ہیں کہ اکثر حصہ اپنے اوقات کا‘ طواف اور عمرہ میں صرف کرتے ہیں اور اس پر ان کو ناز ہوتا ہے کہ ہمارا مالک‘ ہماری یہ حالت دیکھ کر خوش ہورہا ہے‘ جو لوگ سلاطین کی خدمت میں رہتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ بادشاہوں کو خوش کرنے کے لئے کیسی حرکات کی ضرورت ہوتی ہے‘ ممکن نہیں کہ دوسرے وقت اس قسم کی حرکات ان سے صادر ہوں‘ یہاں تک تو نوبت پہنچ جاتی ہے کہ اگر بادشاہ دن کو رات کہے تو تارے دکھلانے کی ضرورت ہوتی ہے جیسا کہ سعدی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
اگر شہ روز را گوید شب است این
بباید گفت اینک ماہ و پرویں
غرض کہ اپنے مالک کی خوشنودی کے لحاظ سے غیر معمولی حرکات کرنا متقضائے فطرت انسانی ہے۔
حج کے روحانی فوائد و برکات

حج کی فرضیت میں کئی منافع اور اغراض ہیں‘ منجملہ ان کے عقلی اور ایمانی امتحان بھی ملحوظ ہے کیونکہ نہ عقل قبول کرسکتی ہے نہ ایمان حکم کرتا ہے کہ خدائے تعالیٰ چار دیواری میں اپنی ذات سے رہتا ہو اور وہ اس کا گھر ہو! مگر اس کو ’’بیت اللہ‘‘ کہنا اور اس کا طواف کرنا اور اسی کی طرف سجدہ کرنا ضروری ٹھہرایا گیا۔
اصل وجہ اس کی یہ ہے کہ اکثر عالی فطرتوں کو خواہش ہوا کرتی ہے کہ مصائب سفر اور مشقتیں اٹھاکر اپنے مالک کی پیشگاہ میں حاضر ہوں اور اپنی عقیدت اور محبت کا ثبوت دیں‘ چونکہ حق تعالیٰ جسمانیت سے منزہ ہے جس کے لئے کوئی مقام ایسا نہیں ہوسکتا جس کی نسبت یہ کہا جائے کہ خدائے تعالیٰ وہاں ساکن ہے‘ اس وجہ سے ان کو اپنا شوق و ذوق ظاہر کرنے کی کوئی صورت نہ تھی‘ رحمت الٰہی نے ان کی تمنا پوری کرنے کی یہ تدبیر کی کہ ایک مقام خاص بنام ’’بیت اللہ‘‘ زمین پر بنایا جائے تاکہ ان جانباز عشاق کی تمنائیں پوری ہوں‘ یہی بات اس حدیث شریف سے مستنبط ہوتی ہے کہ جب آدم علیہ السلام جنت سے اتارے گئے‘ حق تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ایک گھر زمین پر اتارتا ہوں جس کے گرد طواف کیا جائے گا‘ جس طرح میرے عرش کے گرد طواف کیا جاتا ہے اور اس کے پاس نماز پڑھی جائے گی جس طرح میرے عرش کے نزدیک پڑھی جاتی ہے‘ پھر نوح علیہ السلام کے طوفان کا زمانہ جب آیا تو وہ گھر اٹھالیا گیا‘ اس کے بعد ہر چند کہ انبیاء علیہم السلام اس کا حج کیا کرتے تھے مگر اس کا مقامِ خاص انہیں معلوم نہیں رہتا تھا یہاں تک کہ ابراہیم علیہ السلام نے وہاں اس کی بنیاد قائم کی۔
اس سے ظاہر ہے کہ جس طرح فرشتوں کے لئے آسمانوں میں عرش ہے‘ انسانوں کے لئے زمین پر کعبہ شریف ہے اور عرش کو جو نسبت حق تعالیٰ کے ساتھ ہے وہی نسبت بیت اللہ کو ہے‘ اگر خدائے تعالیٰ کو کسی مقامِ خاص کی ضرورت ہوتی تو عرش‘ قدیم ہوتا حالانکہ قرآن شریف سے اس کا حادث ہونا ثابت ہے‘ اس سے ظاہر ہے کہ الرحمن علی العرش استوی اور فرشتوں کے عرش کو گھیرے رہنے کی جو خبر دی ہے اس سے بھی اظہار تزک و احتشام اور کرّ و فرِشاہی مقصود ہے۔
ادائی حج کے لئے عرفہ‘ مزدلفہ و منیٰ مقرر کرنے کی حکمتیں

امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کسی نے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ حج کے روز لوگ اس پہاڑ کے پاس (یعنی عرفات میں) کھڑے ہوتے ہیں جو حدِّ حرم سے باہر ہے اور حرم میں نہیں کھڑے ہوتے؟ فرمایا اس لئے کہ کعبہ‘ بیت اللہ ہے اور حرم‘ باب اللہ ‘ جب بندے اپنے خدا کی بارگاہ میں وفد بن کر آتے ہیں تو وہ پہلے دروازے کے باہر کھڑے کئے جاتے ہیں تاکہ نہایت عاجزی اور تضرع کریں‘ پھر اس نے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ مشعر حرام کے پاس بھی وقوف ہوتا ہے؟ فرمایا جب اندر آنے کی انہیں اجازت ہوئی تو وہ اندر تو آگئے مگر پھر دوسرے پردے کے پاس یعنی مزدلفہ میں روکے جاتے ہیں تاکہ پھر وہاں تضرع اور عاجزی کریں اور اس کے بعد قربانی گزراننے کی اجازت ہوتی ہے جو باعث تقرب ہے اور وہاں تمام گناہوں اور میل کچیل سے پاک و صاف ہوکر اصلاح وغیرہ بنواکر باطہارت و زینت‘ زیارت کرنے کی اجازت ہوتی ہے (اسی وجہ سے اس طواف کا نام طواف الزیارۃ ہے)‘ پھر اس نے پوچھا ایام تشریق میں روزے کیوں منع کئے گئے؟ فرمایا: اس لئے کہ اُن دنوں لوگ خدائے تعالیٰ کی مہمانی میں ہوتے ہیں اور مہمان بغیر اجازتِ میزبان کے روزہ نہیں رکھ سکتا‘ پھر اس نے پوچھا کہ کعبہ شریف کا پردہ پکڑنے کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا وہ ایسا ہے جیسے کوئی شخص کسی کا قصور کرتا ہے اور جب اس سے ملاقات ہوتی ہے تو اس جرم کی معافی کے لئے اس کا دامن پکڑکر معافی چاہتا ہے۔
غرض کہ حق تعالیٰ نے اس عالم مجازی میں ایک مقام خاص میں دربار کا نقشہ قائم فرمایا تاکہ عشاقِ بارگاہ کبریائی وہاں جاکر اپنے دل کی بھڑاس نکالیں‘ جن لوگوں کو مذاق محبت ہے اور عشق کی چاشنی چکھ چکے ہیں‘ وہ جانتے ہیں کہ اپنے معشوق کی طرف جب کسی چیز کی نسبت ہوجاتی ہے تو اس کے ساتھ ایک خاص قسم کا ایسا تعلق ہوتا ہے جو دوسری کسی چیز سے نہیں ہوتا ‘ چنانچہ مجنوں کا قصہ مشہور ہے کہ لیلیٰ کی گلی سے ایک کتے کو نکلتے دیکھا تو بے ساختہ اس کے قدموں پر جاگرا اور رو رو کر کہنے لگا کہ یہ میری معشوقہ کی گلی کا کتا ہے۔
اب کہئے کہ محبان بارگاہِ الٰہی کا اس گھر کے ساتھ کیسا تعلق ہونا چاہئے جس کو حق تعالیٰ نے اپنا گھر فرمادیا اور تمام دربار داری کے لوازم وہاں قائم کئے؟ اہل ایمان چونکہ محبان بارگاہِ کبریائی ہیں‘ اس بیت اللہ کی عظمت کو اُن ہی کے دل جانتے ہیں دوسرے اس کو کیا جانیں! زیادہ سے زیادہ اگر وہ قدر کریں گے تو آرائش ظاہری کی قدر کریں گے‘ جیسا کہ سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
دیدم بہ در کعبہ دے مغبچہ میگفت
کایں خانہ بدیں خوبی آتشکدہ بایستے
جن کو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام پر ایمان نہیں ‘ ان کی نظروں میں بیت اللہ ایک پتھر کی چار دیواری ہے‘ جیسے کفار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی نظروں میں ایک معمولی آدمی یا ساحر سمجھتے تھے (العیاذ باللہ)‘ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں حق تعالیٰ فرماتا ہے و تراھم ینظرون الیک وھم لا یبصرون یعنی کفار نبی کو دیکھتے ہی نہیں کہ ان کی حقیقت کیا ہے‘ اسی طرح ان لوگوں کا بھی یہی حال ہے وہ جانتے ہی نہیں کہ بیت اللہ کی حقیقت کیا ہے۔
حج دافع فقر و غربت ہے

اور ایک امتحان یہ بھی ہے کہ متعدد حدیثوں میں وارد ہے کہ حج و عمرہ اکثر ادا کیا کرو کیونکہ وہ فقر کو ایسا دفع کرتے ہیں جیسے بھٹی سونے چاندی سے میل کو۔
بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ حج میں مال کا خرچ ہی خرچ ہے اس لئے غنی کا فقیر ہوجانا کسی قدر قرین قیاس ہے‘ برخلاف اس کے فقیر کا غنی ہوجانا باوجود رہے سہے مال خرچ ہوجانے کے ہرگز قرین قیاس نہیں! اس سے ضعیف الایمان لوگوں کا امتحان مقصود ہو تو تعجب نہیں‘ اس لئے کہ کامل ایمان والے تو پہلے ہی سے جان و مال کو نذر کر بیٹھے ہیں‘ جب سے یہ آیت سنی ہے ان اللہ اشتریٰ من المومنین انفسھم و اموالھم بان لھم الجنۃ یعنی خدائے تعالیٰ نے ایمان داروں سے ان کے جان و مال جنت کے بدلے خرید لئے ہیں‘ ان کو نہ غنیٰ سے مطلب ہے نہ فقر سے‘ جو کام وہ کرتے ہیں اس میں صرف اپنے مالک کی رضامندی ان کو مقصود ہوا کرتی ہے‘ چونکہ حق تعالیٰ اپنی کمال درجے کی خوشنودی اور بے انتہا بشاشت حج میں ظاہر فرماتا ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ میں وارد ہے کہ جو لوگ سوار ہوکر حج کو جاتے ہیں ان کے جانوروں کے ایک ایک قدم پر ستر ستر نیکیوں کا ثواب ان کو ملتا ہے اور جو پیادہ پا جاتے ہیں ان کے ایک ایک قدم پر سات سو نیکیوں کا ثواب ہے‘ جو مکہ معظمہ سے حج کے لئے پیادہ پا نکلے یعنی مکہ مکرمہ سے عرفات تک پیادہ جائے تو واپس آنے تک اس کے ایک ایک قدم پر سات سو نیکیاں اس قسم کی لکھی جاتی ہیں جو حسنات حرم سے ہوں‘ لوگوں نے عرض کیا حسنات حرم کیا ہیں؟ فرمایا: ہر نیکی لاکھ نیکیوں کے برابر ۔
اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بوڑھوں ‘ بچوں‘ ضعیفوں اور عورتوں کا حج اور عمرہ ہی جہاد فی سبیل اللہ ہے۔
جب حاجی احرام باندھ کر تلبیہ کہتا ہے تو اس کے سب گناہ بخشے جاتے ہیں‘ اس کے سوا حج کے فضائل بہ کثرت وارد ہیں‘ جن سے کمال درجے کی خوشنودیٔ الٰہی ثابت ہوتی ہے‘ اس لئے کامل الایمان اپنے فقر کا خیال کرتے ہیں نہ غنیٰ کا حج کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں‘ باوجود اس کے کہ یہ زمانہ کامل ضعف ایمان کا ہے مگر بفضلہٖ تعالیٰ اب بھی ایسے حضرات بکثرت موجود ہیں‘ چنانچہ ہر سال ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں اہل ایمان فقراء دور دور سے حج کے لئے جاتے ہیں۔
خواہ حج فرض ہو یا نفل جب وہ گھر سے نکلتے ہیں تو تمام مصائب ان کے پیش نظر ہوتے ہیں‘ ’’ہرچہ بادا باد ما کشتی در آب اندا ختیم‘‘ کہتے ہوئے عاشق جانباز کی طرح ان کا بڑھتا قدم پیچھے نہیں ہٹتا‘ ان لوگوں کو عشق‘ مضطر کرکے کشاں کشاں اس بارگاہ عظیم الشان تک پہنچادیتا ہے‘ پھر فقراء کے طفیل میں اغنیاء کو بھی ایک بڑا ذخیرہ اخروی حاصل ہوجاتا ہے‘ کیونکہ اگر اغنیاء ایک روپیہ خیرات کریں تو دس لاکھ روپئے کی خیرات کا ثواب حاصل ہوتا ہے۔
حدیث شریف میں ہے کہ جو لوگ حرام کے مال سے حج کو جاتے ہیں اور جب احرام باندھ کر لبیک اللھم لبیک کہتے ہیں تو ارشاد ہوتا ہے لا لبیک ولا سعدیک یعنی نہ تیرا لبیک مقبول ہے نہ سعدیک ‘ ہر شخص اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھ لے کہ کیا کُل کسبِ معاش کے ذرائع حلال ہیں؟ بعض ائمہ کے حال میں شائد امام زین العابدین رضی اللہ عنہ ہوں‘ لکھتے ہیں کہ آپ نے جب احرام باندھا ‘ بیہوش ہوکر گرگئے‘ تو لوگوں نے جب اس کا سبب پوچھا تو فرمایا کہ ’’لبیک‘‘ کہتے ہی مجھے خوف ہوا کہ ’’لا لبیک لک‘‘ کا اگر جواب ہو تو کیا کیا جائے۔
غرض کہ ہر ایک کو چاہئے کہ امیدوار فضل رہے‘ کسی بات کا گھمنڈ وہاں چل نہیں سکتا‘ صرف خلوص دیکھا جاتا ہے‘ الحاصل کامل الایمان لوگوں کی حالت ہی کچھ اور ہوتی ہے جس کو ہر شخص سمجھ نہیں سکتا‘ ان کو خدا اور رسول کے ارشادات پر ایمان لانے میں ذرا بھی تامل نہیں ہوتا‘ ضعیف الایمان بھی اگر ایمان لانا چاہیں کہ فقیر حج کرنے سے غنی ہوجاتا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہے تو ان کو یہ خیال کرنا چاہئے کہ فقیر کو غنی بنانا خدا ہی کا کام ہے‘ ممکن ہے کہ کوئی ایسا سبب قائم کردے کہ نکبت اور افلاس دور ہوجائے‘ اگر تونگری صرف عقل سے متعلق ہوتی تو دنیا میں کل عقلاء غنی ہوتے‘ حالانکہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ اکثر عقلاء مفلوک اور مفلس رہتے ہیں اور بہت سے حمقاء عیش و عشرت کے مزے اڑاتے ہیں اور عقلاء کے محسود بنے رہتے ہیں! ولنعم ما قیل:
اگر روزی بدانش در فزودے
ز ناداں تنگ تر روزی نبودے
بہ ناداں آں چناں روزی رساند
کہ صد دانا دراں حیراں بماند
قدرت خداوندی کے رنگارنگ جلوے
خدا کی قدرت کا مشاہدہ اسی سے ہوجاتا ہے کہ بیت اللہ‘ ایک ریگستان اور کوہستان میں واقع ہے‘ جہاں کھیتی تک نہیں ہوتی‘ باوجود اس کے جس کا جی چاہے دیکھ لے کہ کیسے لطیف اور خوشگوار میوے موسم حج میں وہاں ملتے ہیں (بلکہ عام دنوں میں بھی) لاکھوں آدمیوں کا مجمع ہونے پر غنی تو غنی فقیر بھی اس افراط سے میوے کھاتے ہیں کہ دوسرے اکثر مقامات پر اغنیاء کو بھی نصیب نہیں ہوتے۔
اس سے زیادہ قابل حیرت یہ حقیقت ہے کہ منیٰ میں تین جمرات ہیں جن کو ستر کنکریاں مارنا ضرور ہے‘ ان مقامات میں جہاں کنکر گرتے ہیں وہ جگہ دس پندرہ گز طول و عرض کی ہوگی‘ مزدلفہ کے میدان سے ہر شخص کنکر اپنے ساتھ لاکر وہاں مارتا ہے‘ اب دیکھئے کہ حاجی ہر سال کم از کم چھ لاکھ ہوتے ہیں (اس سے زائد کی کوئی حد نہیں)‘ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ اگر کسی سال چھ لاکھ سے کم ہوں تو فرشتے اس عدد کو پورا کرتے ہیں اور اس حساب سے ہر سال چار کروڑ بیس لاکھ کنکروں کا ڈھیر وہاں ہوتا ہے‘ اور یہ طریقہ ہزاروں سال سے جاری ہے صرف آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانہ سے حساب لگایا جائے تو اس تیرہ سو انتیس سال کے کنکروں کے تین پہاڑ ہونا چاہئے! حالانکہ پہاڑ تو کہاں ایک ٹیلہ بھی نہیں ہے! پھر یہ خیال نہیں ہوسکتا کہ سیل میں وہ بہہ جاتے ہوں گے‘ اس لئے کہ وہ سیلاب کا مقام نہیں اور نہ سخت ہواؤں کا وہاں گزر ہے اور نہ حکومت کی طرف سے ان کو اٹھوانے کا کوئی اہتمام ہے!! (یہ صاحب تحریر شیخ الاسلام علیہ الرحمہ کے زمانہ تک کے احوال ہیں) اس کھلے مشاہدے کے بعد ہر عاقل کو یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ خدائے تعالیٰ کی قدرت سے کوئی بات بعید نہیں‘ اس قسم کے مشاہدات کے بعد جس کو ذرا بھی ایمان ہو اس کا ایمان قوی ہوجاتا ہے اور ان اماکن متبرکہ کی ایسی وقعت اس کے دل میں ہوتی ہے کہ جس کا بیان نہیں ہوسکتا‘ اور جس کو ایمان سے کوئی تعلق نہ ہو اس کے دل پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور یہ کوئی نئی بات نہیں‘ اگر ہر ایک کے دل پر یہ اثر ہونے لگے تو دنیا میں کوئی کافر نہ رہے۔
تلخیص : از مقاصد الاسلام ‘ حصہ چہارم‘ العج للحج
تالیف: شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی علیہ الرحمۃ والرضوان
 
Top